- اکیسویں صدی ’’دماغ‘‘کی دنیا ہے ،کیونکہ انسان نے اپنے دماغ کی بدولت اتنی شاندار ترقیاں کی ہیں کہ انہیں دیکھ کر عقل دَنگ رہ جاتی ہیں ۔ انسان جہاں خلاؤں کو تسخیر کررہا ہے تو دوسری طرف بائیوٹیکنالوجی کے سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھارہا ہے ۔یہ سب کچھ انسان کے لیے تب ممکن ہوا جب اس نے اپنے دماغ کا بہترین استعمال کیا اور اس کو ماضی کے خیالات کا قیدی بننے کے بجائے ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا شہ سوار بنایا۔یہ سب عقلِ انسانی کا مثبت رُخ ہے ۔اسی مثبت رُخ کی بدولت انسان اپنی زندگی میں خوشی و سرور کے دروازے کھول سکتا ہے اور اگر یہ مثبت ،مثبت نہ ہو بلکہ منفی ہو تو پھرانسان مایوسی ، بے چینی اور ذہنی اذیت کی تاریکیوں میں رفتہ رفتہ پھسلتا جاتا ہے ۔ذہن اور دماغ جب تک انسان کے تابع ہوتے ہیں تو اس کی زندگی پرسکون ہوتی ہے لیکن جیسے ہی انسان کا ذہن اس پر سوار ہوجاتا ہے توپھر وہ خیالات کے بھنور میں پھنستا جاتا ہے ۔انسانی ذہن کی تین عادات ایسی ہیں جن پر قابو پانا بہت ضروری ہے،کیونکہ اگر یہ برقرار رہیں تو پھر انسان زندگی سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔آئیے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
- پہلی عادت
- ذہن کی پہلی عادت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ حال سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے ماضی یا مستقبل کی فکروں میں رہتا ہے ۔ماضی کی دوقسمیں ہیں مثبت اور منفی۔مثبت ماضی ، انسان کی خوبصورت یادوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ منفی ماضی وہ حادثات ہیں جو انسان کے ساتھ پیش آئے ہوتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی ہماری زندگی سے گزر چکا ہوتا ہے لیکن انسان کا ذہن اس حقیقت کو نہیں جانتا اور ہوتا یوں ہے کہ ذہن کسی بھی واقعے کی ریکارڈنگ انسان کے ذہن میں چلادیتا ہے ۔جس سے انسان ماضی کے دریا میں بہنا شروع ہوجاتا ہے ۔ماضی میں رہنے والا ذہن بیمار بن جاتا ہے او ر پھر یہ شخص ہر وقت اپنے کندھے پر اپنی ماضی کو لاش کی صورت میں اٹھائے پھررہا ہوتا ہے۔ بہت سارے لوگ آپ کو اس کا عملی نمونہ بنے ملیں گے جوزندگی میں کامیابیاں اور خوشیاں سمیٹنے کے باوجود بھی اپنے ماضی کو سینے سے لگاکرکہتے ہیں:’’تمہیں یاد ہے اس نے میرا ساتھ کتنا برا کیا تھا ؟‘‘
- ایسا ہی ایک واقعہ نپولین کاہے۔ وہ ایک دفعہ اپنے بالکونی میں کھڑا تھا ،وہاں سے لاٹھی کا سہار ا لیے ایک بابا گزرا ۔نپولین نے اسے رُکنے کا کہا،وہ رک گیا۔نپولین اندر گیا اور صندو ق سے ایک پتھر نکال کرلایا ، پھر اس بابا سے کہاـ:اب جاؤ۔وہ جیسے ہی جانے لگا تو اس نے پیچھے سے پتھرماردیا ۔بابا نے مارنے کی وجہ پوچھی تو نپولین بولا : تم بھول گئے ہو ، تم نے بچپن میں مجھے پتھر مارا تھا ،میں نے تب سے اس کو سنبھال کررکھا ہوا تھا ۔
- اگر آپ ایک ربر بینڈ کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر کھینچیں اور پھر چھوڑدیں تو وہ واپس آجائے گا،لیکن اگراس کو کھینج کر کچھ دِنوں تک اسی حالت میں رکھیں اور پھر چھوڑدیا جائے تو وہ واپس نہیں آئے گا بلکہ لمبا ہی رہے گا۔انسانی ذہن بھی ایسا ہی کرتاہے ۔آپ اس کو با رباراگر ماضی میں رکھتے ہیں تو وہ ادھر کاہی ہوکر رہ جاتا ہے اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ اچھا بھلا تعلیم یافتہ انسان بھی آپ کو ہر وقت روتا ہوا ملے گا۔کیونکہ وہ ہر وقت ماضی میں رہ رہاہے۔
- دوسری عادت
- انسانی ذہن کی فطرتی بات یہ ہے کہ یہ خود بخود منفی سوچتا ہے اور منفی چیزوں کو یاد رکھتاہے۔آپ کو مثبت یادوں کے لیے کچھ پریکٹس کرنی ہوتی ہے وگرنہ ایک ناگوار واقعہ بھی انسان کے پورے دن کو خراب کردیتاہے۔اس میں انسان کا اپنا قصور نہیں ہوتا بلکہ یہ ذہن کی وہ عادت ہوتی ہے جو اس کو ملی ہوتی ہے کہ ہر حال میں منفیت کو دیکھنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بہت سارے لوگ ان حادثات سے مرچکے ہیں جو واقع ہی نہیں ہوئے ، یا کبھی ہوئے تھے مگر حال سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا،لیکن ان کا ذہن اتنی بار اس واقعے کو دہراتا ہے کہ دہراتے دہراتے وہ ایک پوری بیماری بن جاتی ہے او ر یہ بات یاد رکھیں کہ انسان کا ’’منفی ماضی‘‘ اگر مضبوط ہوتواس کے لیے آگے بڑھنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔
- اگر ذہن کو ماضی کی مثبت یادیں دے دی جائیں تو پھر کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ معمولی لگے گا، ذہن تھکے گا نہیں اور انسان اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر گزار ہوگا ۔جیسا کہ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’نعمتیں کھاکھا کر دانت گھس گئے ہیں لیکن زبان پھر بھی شکر اد ا نہیں کررہی ۔‘‘یہ احساس تب ہی پیداہوگا کہ جب انسان مثبت ماضی میں رہے۔ضرورت بھی اس بات کی ہے کہ انسان اپنے ذہن کو یہ عادت ڈلوائے کہ وہ ہمیشہ مثبت چیزوںپر فوکس رکھے۔مثبت فوکس رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ اپنی زندگی میں ہمیشہ مثبت رہیں گے۔
- تیسری عادت
- مستقبل ، گمان کی دنیا ہے ۔ذہن کی تیسری عادت گمان پیدا کرناہے ۔ گمان کا مطلب ہے کہ خود سے کوئی چیز فرض کرکے سوچ لینا۔’’مثبت مستقبل ‘‘وہ ہوتا ہے کہ جب انسان آنے والی زندگی کے متعلق اپنے لیے پلاننگ کرکے کچھ اہداف متعین کرلے اور اس کے حصو ل میں لگ جائے ،لیکن اگر یہ سب نہیں ہے تو پھر وہ خدشے اور منفی مستقبل ہے۔انسان جب بھی خدشوں میں رہتاہے وہ ذہنی طورپر درست نہیں ہوتا۔اپنے ذہن کی درستی کو پرکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دیکھیں وہ ماضی یا مستقبل کے منفی والے خانے میں تو نہیں ۔اگر ہے تو پھر وہ بیمار ہے اور اس کو علاج کی ضرورت ہے۔
- انسان اگردنیا کے مہنگے ترین ریسٹورنٹ میں بیٹھا ہو اور اس کے سامنے لذیذ ترین کھانا موجود ہو ۔وہ بڑے رغبت کے ساتھ کھانے کی طرف دیکھ رہا ہو اور دل ہی دل میں خوش بھی ہورہا ہو کہ اتنا شاندار کھانا آج سامنے ہے لیکن جیسے ہی وہ کھانا شروع کرتا ہے تو اس کا ذہن ماضی کے کسی منفی واقعے کی طرف چلا جاتا ہے اور ایک کے بعد دوسرا،تیسرااور چوتھا خیال اس کے ذہن کو جکڑلیتا ہے۔وہ کھاناتو کھارہا ہوتا ہے لیکن اس کا ذہن مسلسل منفی سوچوں یا خدشوں میں ہوتا ہے ۔جب اس کو ہوش آتی ہے تو کھانا ختم ہوچکا ہوتا ہے اور تب اس کو یہ بھی ادراک ہوجاتا ہے کہ کھانے کا جولطف و مزہ تھا ،میں اس سے محروم رہا۔
- ماضی کی منفی یاد یا مستقبل کا منفی خدشہ ،حال کے لطف کو تباہ کردیتا ہے ۔اس بات کو اگر ہم قرآن کے تناظر میں دیکھیں تو وہاں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ ’’بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ خوف ہوتا ہے اور نہ ہی حزن‘‘ (سورہ یونس/آیت نمبر:62)
- اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ جو اللہ کے قریب ہوتے ہیں ،اللہ انہیں ماضی کے پچھتاوؤں اور مستقبل کے خدشوں سے آزاد کردیتا ہے اوروہ لوگ لمحہ موجود کا لطف اٹھاتے ہیں ۔انسان کو اپنے ذہن کو یہ عادت ڈلوانی چاہیے کہ وہ حال میں رہے۔جب یہ عادت ایک دفعہ بن جائے گی تو پھر اس کو کرنے کے لیے کوئی زور نہیں لگانا پڑے گا بلکہ خو د بہ خو د ہی ذہن حال میں رہے گا اور وہ ماضی یا مستقبل میں نہیں جائے گا۔
- لمحہ موجود کالطف
- لمحۂ موجود کا لطف لینے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ماضی اور مستقبل کی فکروں سے جان چھڑائے۔اس کے لیے بہترین طریقہ مختصر مراقبہ ہے ، جس کا طریقہ یہ ہے کہ بیٹھنے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کریں جس میں آپ خو د کو پرسکون محسوس کریں۔دوزانو بیٹھ جائیں۔موبائل خاموش کرتے ہوئے 10منٹ کے لیے اپنے آ پ کوبا ہرکی ہر چیز سے منقطع کرلیں ۔گہرے سانس لینا شروع کریں ۔اپنا دھیان اپنی سانسوں پر رکھیں ۔ناک سے سانس کھینچیں اور منہ سے خارج کریں۔اس دوران آپ کا ذہن اِدھر اُدھر بھٹکنے کی کوشش کرے گا مگر آپ نے اس کو بھٹکنے نہیں دینااور اپنا مکمل فوکس اپنی سانسوں پر رکھنا ہے۔مائنڈ فلنیس کی دس منٹ پر مشتمل یہ مشق کرنے کے بعد آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے اور آپ کادِل و دماغ تروتازہ ہوجائے گا۔
- خیالا ت کا سیلاب
- روزمرہ زندگی میں ہمارے ذہن میں موجود سوچیں اتنی تیز رفتار ہوتی ہیں کہ جس طرح تسبیح کا ایک دھاگاٹوٹتا ہے تو ایک کے بعد ایک تسبیح کے دانے گرتے رہتے ہیں ۔ایسا ہی ایک سوچ کے بعد دوسری ، پھر تیسری او ر چوتھی سوچ پیدا ہوتی رہتی ہے ۔انسان پورے دن میں ساٹھ سے چھیاسٹھ ہزار تک خیالات سوچتاہے اور اگر وہ ’’حال‘‘ میں نہ رہے تو یہ سوچیں اس کی زندگی کو اجیرن بنادیتی ہیں۔انسان جب لمحہ موجود میں رہنے کی مشق کرلیتا ہے تو وہ زندگی سے لطف اندوز ہونا شروع ہوجاتاہے۔اس کو کھانے میں مزہ آنے لگتا ہے۔اندر کی دنیا بدل جاتی ہے ۔وہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے لمحات کو انجوائے کرتا ہے۔اس کو بارش میں بھی لطف آتا ہے ۔اس کو مٹی کی خوشبو بھی اچھی لگتی ہے۔اس کو بچوں کی معصومیت اچھی لگتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی جلد کا رنگ بھی بدل جاتا ہے اور۔۔ اس کامعیارِزندگی تبدیل ہوجاتاہے۔زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کا اختیار انسان کے اپنے پاس ہوتا ہے۔
- بابا گرونانک کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ ان کے پاس چند بچے آئے ،بچوں نے ہاتھ میں چڑیا کا بچہ پکڑا ہوا تھا اور وہ یہ بات معلوم کرنے آئے تھے کہ کیا بابا ہمیں بتاسکتے ہیں کہ ہم نے کچھ پکڑا ہو اہے یا نہیں ۔اگر انہوں نے بتادیا تو ہم پوچھیں گے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔اگر وہ کہتے ہیں کہ زندہ ہے تو چڑیا کے اس بچے کوہتھیلی میں ہی دبوچ کر مار دیں گے او راگر وہ کہتے ہیں کہ مرد ہ ہے تو ہم اس چڑیا کے بچے کو اڑاکر دکھادیں گے کہ نہیں جی ! یہ تو زندہ ہے ۔جیسے ہی یہ بچے ان کے پاس پہنچے تو بابا نے کہا :بیٹاتم نے چڑیاکا بچہ ہاتھ میں چھپایا ہواہے۔انہوں نے پوچھا :زندہ یا مردہ ؟بابا نے کہا:انسان کے ہاتھ میں چڑیا کا بچہ ہو تو اس کو دبوچنے یا زندہ رکھنے کا اختیار اس کے پاس ہوتا ہے ۔زندگی کے ساتھ بھی انسان کا تعلق ایسا ہی ہے ۔انسان چاہے تواس کا گلا دبوچ کر اس کو خود کے لیے اذیت ناک بنادے یا پھر زندہ رکھ کراس کواپنے لیے خوش وخرم و بنادے۔
(قلم کلامی:قاسم علی شاہ)
0 تبصرے