روٹی بناتے ہوئے چھینک کی آواز پر ہمارے کان کھڑے ہو گئے، دوسری چھینک پر ہاتھ سے آٹے کا پیڑا گرتے گرتے بچا اور تیسری چھینک سنتے ہی ہم گھبرا کر کچن سے باہر آ گئے ، میاں صاحب کو اک شانِ بے نیازی سے اخبار پڑھنے میں منہمک پایا تو پوچھا
"یہ آپ ہی چھینک رہے تھے کیا؟"
اخبار سے سر اٹھا کر تیوری پر بل ڈال کر ایک دم ایسے جواب آیا جیسے وہ پہلے سے ہمارے سوال کے منتظر ہوں
"جی ہاں، یہ گناہ مجھ ہی سے سرزد ہوا ہے، تو پھر؟"
"کچھ نہیں بس ایسے ہی پوچھا تھا"
کھسیا کر واپس کچن میں آ گئے مگر یہ کمبخت دل کسی انجانے خوف سے سہم گیا، ہو نہ ہو یہ "کرونا" کی پہلی علامت ہے. اب کیا کِیا جائے؟ میاں صاحب سے اس موضوع پر بات کرنا بیکار تھا کہ وہ یہ کبھی تسلیم نہ کرتے کہ.... خیر جیسے تیسے روٹی بنا کر کھانا میز پر لگایا اور انہیں تناول ماحضر کی دعوت دی. ہم خود بہانے بہانے دوپٹے سے ناک منہ یوں چھپا رہے تھے جیسے نئی نویلی دلہن سسرال میں شرماتی ہے. اللہ! یہ کرونا کے جراثیم اڑ کر ہماری ناک کا رخ نہ کر لیں.میاں صاحب انتظار میں تھے کہ ہم آئیں تو حسبِ معمول ان کی پلیٹ میں کھانا نکالیں اور خود بھی ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے کا ثبوت دیں مگر برا ہو اس کرونے کا کہ شادی شدہ زندگی میں پہلی بار شوہر کے ساتھ کھانا کھانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی ورنہ ساس نندوں کا یہ ارمان کہ ہم دونوں الگ الگ اوقات میں کھانا کھائیں کبھی پورا نہ ہوا تھا.
"کیا بات ہے؟ آج کھانا نہیں کھائیں گی؟" ہمیں ادھر ادھر بولایا ہوا پھرتے دیکھ کر میاں صاحب نے پوچھا.
"آپ شروع کریں، ہماری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے. گلے میں کچھ کچھ ہوتا ہے " یہ بہانہ اس لیے بنایا کہ اپنے علاج کا کہہ کر میاں صاحب کو احتیاطاً کلونجی کا بھپارا لینے اور نمک کے غرارے کرنے پر مجبور کر دیں گے.
"ارے گلے کو کیا ہوا؟ پہلے کیوں نہیں بتایا؟ میاں صاحب اچھل کر کھڑے ہو گئے، چہرے پر وہی تاثرات تھے جو تھوڑی دیر پہلے ان کے چھینکنے پر ہمارے چہرے پر ابھر آئے تھے.
" آپ کھانا کھائیے، معمولی سی خراش ہے، غرارے کرنے اور بھپارا لینے سے جاتی رہے گی"
چہرے کی اڑتی ہوائیاں کہہ رہی تھیں کہ ہمارے جواب سے ان کی تشفی نہیں ہوئی مگر ہم غڑاپ سے کچن میں گھس گئے.
اپنے لیے الگ نکالا ہوا کھانا کھڑے کھڑے ہی کھانا شروع کر دیا مگر برا ہو اس جلدی کا، ایک دم اُچھو لگا اور کھانسنے کی آواز دور تک گئی، میاں صاحب دروازے تک آئے اور ٹھٹک کر وہیں رک گئے گویا دل ہی میں کہہ رہے ہوں
جس کو ہوں "جان و دل" عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
"کہا تھا ماسک پہن کر رکھیے مگر رخِ روشن کی تابانی کے جلوے دکھائے بغیر آپ کا گزارہ کہاں ہوتا ہے"
اللہ اکبر! یہ فرمان ان صاحب کا تھا جن کی بے سُری آواز کے باوجود ہمیں ان کے منہ سے یہ گانا بہت سریلا لگتا تھا
یہ جو چلمن ہے دشمن ہے ہماری
وہ دن تو چلو ہوا ہوئے مگر اتنی بھی حقیقت پسندی کیا کہ دل ہی ٹوٹ جائے. انہیں اشارے سے باہر جانے کا کہہ کر ایک گلاس پانی پیا چار چمچ چینی پھانکی تو سانس بحال ہوئی. چولہے پر ابلنے کے لیے پانی چڑھایا اور باقی ماندہ کھانے سے انصاف کرنے کے بعد میاں صاحب کو بلانے باہر آئے، دیکھا تو صحن میں منہ پر ماسک پہنے تیز دھوپ میں کرسی ڈالے بیٹھے ہیں. دل میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی کہ بھلے رنگت مزید پکی ہو جائے مگر کرونا کے جراثیم تو گرمی سے تڑپ رہے ہوں گے. تین میٹر کی دوری سے پکارا "پانی ابل گیا ہے، احتیاطاً آپ بھی بھپارا لے لیجیے"
"میں لے لوں گا، آپ منہ سر لپیٹ کر آرام کر لیں کچھ دیر"
قربان جائیے ایسی بلاغت کے، اس منہ سر لپیٹنے کے دو لفظوں میں عافیت کی پوری داستان بیان کر ڈالی تھی ، گویا میاں صاحب ہمیں دلی طور پر کرونا زدہ قرار دے چکے تھے. کمرے میں قدم رکھتے ہی سماعتوں میں تین چھینکوں کی باز گشت سنائی دینے لگی، یو ٹیوب میں پناہ لینے کی کوشش کی، استاد رئیس خان کا وائلن، ذاکر خان کا طبلہ، یہاں تک کے پپو سائیں کا ڈھول پیٹنا بھی سن ڈالا مگر
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نَے نوازی
میاں صاحب کی اگلی پچھلی نوازشات یاد آنے لگیں، ہائے میرا کیا بنے گا ان کے بغیر... اس برے خیال پر لاحول پڑھتے ہوئے وضو کر مصلے پر کھڑے ہو گئے. اللہ! اس کرونا کمبخت سے بچنے کی کوئی تو دعا یاد آ جائے، دوستوں نے سینکڑوں دعائیں واٹس ایپ کی تھیں جو ہم نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر حسبِ ہدایت بیس بیس لوگوں کو فارورڈ کر دی تھیں، کاش پڑھ ہی لیتے. اپنی دوست نائلہ کو کال ملائی" مجھے کرونا کی ان دعاؤں میں سے کوئی دعا بتاؤ جو تم بھیجا کرتی تھیں، پچھلی دس بارہ گز لمبی چیٹ پڑھنے کا وقت نہیں ہے" نگہت کا مشورہ دماغ کو دہی بنا گیا " گوگل سے سرچ کرو، مجھے بھی یاد نہیں ہے" ناچار اللہ میاں سے براہ راست گڑگڑا کر التجا کی کہ " تُو تو میری اردو بھی سمجھتا ہے اور دلوں کے ڈونگھے سمندر کی تہہ میں چھپی باتیں بھی جانتا ہے، بس سب اچھا کر دے، تُو تو اپنی مخلوق پر ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے...." یہاں آ کر ہم ایک دم چپ ہو گئے، لگا کہ اللہ کی چاپلوسی کر رہے ہیں، وہ تو بے نیاز ہے اسے ہماری خوشامد کی کیا ضرورت؟ مگر پھر یاد آیا کہ اماں سے کچھ مانگنا ہوتا تھا تو ہم اماں کو اممما کرتے، ان کے دوپٹے کے ساتھ لٹک کر کہا کرتے تھے" آپ سب سے اچھی ہیں " یہ جادوئی جملہ سنتے ہی اماں ایک دم دیالُو ملکہ کا روپ دھار کر "مانگ کیا مانگتی ہے" کی تصویر بن جایا کرتی تھیں اور اپنی خواہش کی تکمیل کے بعد ہمیں اس تصویر میں کتنے ہی دلکش رنگ نظر آنے لگتے تھے. اللہ میاں تو پھر ستر ماؤں سے زیادہ..... بس پھر ہماری زبان چل نکلی. دل کو یقین ہو گیا کہ ہماری ہر بات طاقتِ پرواز رکھتی ہے اور سیدھی عرش پر گئی ہے.اس کے بعد منہ سر لپیٹے بغیر ہی بیڈ پر آتے ہی سو گئے. سکون کی یہ نیند اس وقت ٹوٹی جب کمرے میں کھٹ پٹ کی آواز سنی. میاں صاحب الماری کی دراز میں منہ دئے کھڑے تھے.
"ارے، رات ہو گئی آپ نے مجھے جگایا بھی نہیں " میں نے ایک دم اٹھتے ہوئے کہا.
"آپ کے لیے آرام بہت ضروری ہے، میں نے چائے بنا لی تھی. ابھی خربوزہ کھایا ہے، کھانے کی بھوک نہیں ہے. آپ اپنے لیے بنا لیں اور ہاں میں ذرا لان میں ٹہلنے کے لیے جا رہا ہوں" اس تفصیلی بیان میں وہ تمام احتیاطی تدابیر پوشیدہ تھیں جو ایک کرونا زدہ کے ہوتے ہوئے کی جا سکتی تھیں. عجب آنکھ مچولی کا چکر چل پڑا تھا. ایک دوسرے سے بچتے بچاتے ایک ہی چھت تلے رہنا دوبھر ہو گیا تھا. خیر اٹھی، ان کی چھینکوں کا خیال آتے ہی کھانے پینے سے دل اچاٹ ہو گیا. نماز سے فارغ ہوئی تو دیکھا میاں صاحب ٹی وی کے سامنے صوفے پر لیٹے اونگھ رہے ہیں . آج مشترکہ بیڈ ہم دونوں کو تختہء دار معلوم ہو رہا تھا. اتنے میں صاحب ایک زور دار چھینک کے ساتھ ہی اٹھ بیٹھے اور ہم ان سے دور جا بیٹھے.
" سنیے ایک گولی اینٹی الرجک کھا لیجیے، آج کل فضا میں پولن بھی تو بہت ہے" میں نے محتاط سا مشورہ دیا.
"اچھا ایک گولی اور پانی کا گلاس گیسٹ روم میں رکھ دو، میں آج سے ادھر سو جایا کروں گا. آپ پنکھا چلا کر سوتی ہیں جس سے طبیعت اور خراب ہو جائے گی" انہوں نے نہایت معقول بہانہ گھڑا اور ہم نے بھاگم بھاگ گیسٹ روم کو آئسولیشن روم میں بدلتے ہوئے ضرورت کی ہر چیز وہاں فراہم کر دی. دل ہی دل میں آخرت کے بارے میں قرآنی فرمودات کی سچائی روشن ہوتی چلی گئی، یہاں تو قیامت سے پہلے قیامت ہے یارو والا منظر تھا کہ ہر جان کو اپنی پڑی ہوئی تھی.
کمرے میں واپس آئے تو تجسّس کی عادت نے الماری کی دراز میں جھانکنے پر مجبور کر دیا. ان کے والٹ میں ایک تازہ پرچہ موجود تھا، دونوں بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے مختصر تحریر تھی
" کرونا کی وبا کے ہاتھوں کچھ پتہ نہیں کس کی باری پہلے آ جائے، اپنی والدہ کا بہت خیال رکھنا، اس نے ہم سب کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں. اس کی محبتوں کا صلہ دیا ہی نہیں جا سکتا، آپ کی والدہ بہت عظیم خاتون ہیں"
ہم پر سمجھیں گھڑوں پانی پڑ گیا، ہم اپنی عظمت کا یہ ترانہ پڑھ کر زمین میں گڑ گئے. تُف ہے ایسی زندگی پر جو اس معصوم شخص کے بغیر گزرے. کرونا! تمہارا ستیاناس ہو تُو نے تو جیتے جی ہمیں جدا کر دیا. دبے پاؤں گیسٹ روم کی طرف بڑھے. صاحب سر ہاتھوں میں دئیے بیٹھے تھے، پانی کے ساتھ اینٹی الرجک گولی میز پر جوں کی توں موجود تھی. چونک کر ہمیں دیکھا تو ہم نے ایک سانس میں اپنی کھانسی کی وجوہات اور ان کی چھینکوں کے خدشات بیان کر ڈالے. انہوں نے ایک اطمینان بخش لمبی سانس لی اور فرمایا "اب میرے لیے کیا حکم ہے؟"
"آپ کو اس دفعہ صرف ایک چھینک آئی تھی، تین آتیں تو فکر کی بات تھی. چل کر اپنے کمرے میں سو جائیے، پنکھا نہیں چلاؤں گی." کوشش کے باوجود ہم اپنے جملے سے کرونا کی وحشت کو نہ نکال سکے تھے مگر پنکھا بند رکھنے کی قربانی تو بہرحال دے ہی ڈالی تھی.
تحریر : بشریٰ خلیل
0 تبصرے