*طنز اور طعنہ سے بچئیے *

حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم



چوتھی قسط 



ایک سوال اور اس کا جواب

بعض لوگوں کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جارہا ہے کہ امربالمعروف کرواور نہی عن المنکر کرو، یعنی لوگوں کو اچھائی کی دعوت دو اور اگر کوئی غلط کام میں مبتلا ہے تو اس کو بتادو اور اس کو روک دو۔ اور دوسری طرف یہ کہا جارہا ہے کہ دوسرے مسلمان کا دل مت توڑو۔ اب دونوں کے درمیان تطبیق کس طرح کی جائے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان تطبیق اس طرح ہوگی کہ جب دوسرے شخص سے کوئی بات کہو تو خیرخواہی سے کہو، تنہائی میں کہو، نرمی سے کہو۔، محبت سے کہو اور اس انداز میں کہو کہ جس سے اس کا دل کم سے کم ٹوٹے۔ مثلاً تنہائی میں اس سے کہے کہ بھائی! تمہارے اندریہ بات قابلِ اصلاح ہے، تم اس کی اصلاح کرلو۔ لیکن طعنہ کے انداز میں کہنا یا لوگوں کے سامنے سربازار اس کو رسوا کرنا، یہ چیز انسان کے دل میں گھائو ڈال دیتی ہے، اس لئے حرام اور گناہ ہے۔

ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے آئینہ ہے

ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اَلْمُؤْمِنُ مِرْآۃُ الْمُؤْمِنِ۔

ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے۔ یعنی جس طرح اگر کوئی 


شخص اپنا چہرہ آئینہ میں دیکھ لے تو چہرہ میں کوئی عیب یا داغ دھبہ ہوتا ہے وہ نظر آجاتا ہے، اور انسان اس کی اصلاح کرلیتا ہے، اسی طرح ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے سامنے آنے کے بعد اس کوبتادیتا ہے کہ تمہارے اندر فلاں بات ہے اس کو درست کرلو۔ یہ حدیث کا مضمون ہے۔

آئینہ سے تشبیہ دینے کی وجہ

یہ حدیث ہم نے بھی پڑھی ہے اور آپ حضرات نے بھی اس کو پڑھا اور سنا ہوگا۔ لیکن جس شخص کو اللہ تعالیٰ علمِ حقیقی عطا فرماتے ہیں ان کی نگاہ بہت دور تک پہنچتی ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس اللہ سرہٗ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے مومن کو آئینہ سے تشبیہ دی ہے، لوگ اتنا تو جانتے ہیں کہ آئینہ کے ساتھ یہ تشبیہ اس وجہ سے دی ہے کہ جس طرح آئینہ چہرے اور جسم کے عیوب بتا دیتا ہے، اسی طرح مؤمن بھی دوسرے مؤمن کے عیوب بتا دیتا ہے۔ لیکن آئینہ کے ساتھ تشبیہ دینے میں ایک اور وجہ بھی ہے، وہ یہ کہ آئینہ کا یہ کام ہے کہ وہ آئینہ عیب اور برائی صرف اس کو بتاتا ہے جس کے اندر وہ عیب ہوتا ہے اور جو اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، لیکن دوسرا شخص جو دور کھڑا ہے، ا سکو نہیں بتاتا کہ دیکھو اس کے اندر یہ عیب ہے۔ اسی طرح مومن کا کام یہ ہے کہ جس کے اندر کمزوری یا نقص یا عیب ہے اس کو تو محبت اور پیار سے بتا


دے کہ تمہارے اندر یہ نقص اور کمزوری ہے، لیکن دوسرے کو بتاتا اور گاتا نہ پھرے کہ فلاں کے اندر فلاں عیب ہے اور فلاں نقص ہے۔ لہٰذا دوسروں کو ذلیل کرنا رسوا کرنا، اس کی برائیاں بیان کرنا مومن کا کام نہیں ۔

غلطی بتائے، ذلیل نہ کرے

لہٰذا اس ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے دونوں باتیں بیان فرمادیں ۔ ایک یہ کہ مؤمن کاکام یہ بھی ہے کہ اگر وہ دوسرے مؤمن کے اندر کوئی غلطی دیکھ رہا ہے تو اس کو بتائے۔ دوسرے یہ کہ اس کو دوسروں کے سامنے ذلیل اور رسوا نہ کرے، اس کا عیب دوسروں کو نہ بتائے۔

جاری ہے