حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم* 


پانچویں قسط 




’’طنز‘‘ایک فن گیا ہے

آج ہمارے معاشرے میں طعنہ دینے کا رواج پڑ گیا ہے، اب تو طنز باقاعدہ ایک فن ہوگیا ہے اور اس کو ایک ہنر سمجھا جاتا ہے کہ کس خوبصورتی کے ساتھ بات لپیٹ کر کہہ دی گئی، اس سے بحث نہیں کہ اس کے ذریعے دوسرے کا دل ٹوٹا یا دل آزاری ہوئی۔

انبیاء علیہم السلام طنز اورطعنہ نہیں دیتے تھے

میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ 


فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے، اور یہ سب اللہ کے دین کی دعوت لے کر آئے، کسی نبی کی زندگی میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملے گی کہ کسی نبی نے اپنے مخالف کو یا کسی کافر کو طعنہ دیا ہو، یاطنز کیا ہو، بلکہ جو بات وہ دوسروں سے کہتے تھے، وہ محبت اور خیرخواہی سے کہتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ دوسرے کی اصلاح ہو۔ آج کل تو طعنہ دینے اور طنز نگاری کا ایک سلسلہ چلاہوا ہے۔ جب آدمی کو ادبیت اور مضمون نگاری کا شوق ہوتا ہے یا تقریر میں آدمی کو دلچسپی پیدا کرنے کا شوق ہوتا ہے تو پھر اس مضمون نگاری میں اور اس تقریر میں طنز اور طعن و تشنیع بھی اس کا ایک لازمی حصہ بن جاتا ہے۔

میرا ایک واقعہ

چنانچہ آج سے تقریباً تیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے میں اس وقت دارالعلوم کراچی سے نیا نیا فارغ ہوا تھا۔ اس وقت ایوب خاں صاحب مرحوم کے دور میں جو عائلی قوانین نافذ ہوئے تھے، ان کے خلاف میں نے ایک کتاب لکھی جن لوگوں نے ان قوانین کی حمایت کی تھی ان کا ذکر کرتے ہوئے اور ان کے دلائل کا جواب دیتے ہوئے اس کتاب میں جگہ جگہ طنز کا انداز اختیار کیا تھا، اس وقت چونکہ مضمون نگاری کا شوق تھا، اس 


شوق میں بہت سے طنزیہ جملے اور طنزیہ فقرے لکھے اور اس پر بڑی خوشی ہوتی تھی کہ یہ بڑا اچھا جملہ چُست کردیا۔ جب وہ کتاب مکمل ہوگئی تو میں نے وہ کتاب حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کو سنائی، تقریباً دوسو صفحات کی کتاب تھی۔

یہ کتاب کس مقصد سے لکھی ہے؟

جب والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ پوری کتاب سن چکے تو فرمایا یہ بتائو کہ تم نے یہ کتاب کس مقصد کے لئے لکھی ہے؟ اگر اس مقصد سے لکھی ہے کہ جو لوگ پہلے سے تمہارے ہم خیال ہیں وہ تمہاری اس کتاب کی تعریف کریں کہ واہ واہ کیسا دندان شکن جواب دیا ہے، اور یہ تعریف کریں کہ مضمون نگاری کے اعتبار سے اور انشاء و بلاغت کے اعتبار سے بہت اعلیٰ درجے کی کتاب لکھی ہے، اگر اس کتاب کے لکھنے کا یہ منشا ہے تو تمہاری یہ کتاب بہترین ہے۔

لیکن اس صورت میں یہ دیکھ لیں کہ اس کتاب کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیا قیمت ہوگی؟ اور اگر کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جو آدمی غلطی پر ہے اس کتاب کے پڑھنے سے اس کی اصلاح ہوجائے، تو یاد رکھو! تمہاری اس کتاب کے پڑھنے سے ایسے آدمی کی اصلاح نہیں ہوگی بلکہ اس کتاب کو پڑھنے سے اس کے دل میں اور ضد پیدا ہوگی۔ دیکھو! حضرات انبیاء علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے، انہوں نے دین کی دعوت دی اور کفر اور 


شرک کا مقابلہ کیا، لیکن ان میں سے ایک نبی بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے طنز کا راستہ اختیار کیا ہو۔ لہٰذا یہ د یکھ لو کہ یہ کتاب اللہ کے واسطے لکھی ہے یا مخلوق کے واسطے لکھی ہے، اگر اللہ کے واسطے لکھی ہے تو پھر اس کتاب سے اس طنز کو نکالنا ہوگا، اور اس کا طرزتحریر بدلنا ہوگا۔

یہ انبیاء کا طریقہ نہیں ہے

مجھے یاد ہے کہ جب والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات ارشاد فرمائی توایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے سر پر پہاڑ توڑ دیا کیونکہ دوسوڈھائی سو صفحات کی کتاب لکھنے کے بعد اس کو از سر نو اُدھیڑنا بڑا بھاری معلوم ہوتا ہے، خاص طور پر اس وقت جبکہ مضمون نگاری کا بھی شوق تھا اور اس کتاب میں بڑے مزیدار فقرے بھی تھے، ان فقروں کو نکالتے بھی دل کٹتا تھا۔ لیکن یہ حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کا فیض تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسکی توفیق عطا فرمائی اور میں نے پھر پوری کتاب کو ادھیڑا اور از سرنو اس کو لکھا پھر الحمد للہ وہ کتاب ’’ہمارے عائلی قوانین‘‘ کے نام سے چھپی۔ لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن ہے الحمد للہ یہ بات دل میں بیٹھ گئی کہ ایک داعی حق کے لئے طنز کا طریقہ اور طعنہ دینے کا طریقہ اختیار کرنا درست نہیں ، یہ انبیاء علیہم السلام کا طریقہ نہیں ہے۔

جاری ہے۔