شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم
اصلاحی خطبات:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جلد نمبر۱۱
پہلی قسط
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
طنز اور طعنہ سے بچئے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُؤْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا۔ مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلاَمُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَہَادِیَ لَہٗ وَأَشْہَدُ اَنْ لاَّ إِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْہَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَنَبِیَّنَا وَمَوْلاَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا۔ أَمَّا بَعْدُ!
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَیْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلاَبِاللَّعَّانِ وَلاالْفَاحِشِ وََلاَالْبَذِیِّ۔
حقیقی آفت اور مصیبت
پچھلے چند جمعوں سے زبان کے گناہوں کا بیان چل رہا ہے، زبان کے اِن گناہوں کو صوفیاء کرام ’’آفاتِ لسانی سے تعبیر کرتے ہیں ، یعنی زبان کی آفتیں ‘‘ ’’آفت‘‘ کے معنی ہیں ’’مصیبت‘‘۔ ہم اور آپ ظاہری اعتبار سے مصیبت اسکو سمجھتے ہیں جیسے کوئی بیماری آجائے یا جان یامال کو نقصان پہنچ جائے یااور کوئی دنیاوی ضرر لاحق ہوجائے، تو ہم اس کو آفت اور مصیبت سمجھتے ہیں ۔ لیکن جن اللہ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ حقیقت شناس نگاہ عطا فرماتے ہیں ، وہ یہ فرماتے ہیں کہ حقیقی آفت وہ ہے جس کے ذریعہ انسان کے دین کو ضرر لاحق ہوجائے۔
دنیا غم اور خوشی سے مرکب ہے
اگر کسی کو کوئی دنیاوی ضرر لاحق ہوگیا تو وہ اتنا تشویشناک نہیں کیونکہ دنیا میں دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ، کبھی فائدہ اور کبھی نقصان، کبھی خوشی اور کبھی غم، نہ تو دنیا کا غم پائیدار ہے اور نہ خوشی پائیدار
ہے۔ اگر کسی کو کوئی غم یا پریشانی ہے تو وہ انشاء اللہ چند دنوں کے بعد رفع ہوجائے گی اور انسان اس تکلیف اور غم کو بھول جائے گا، لیکن خدا نہ کرے اگر دین کو کوئی مصیبت لاحق ہوجائے تو یہ ناقابل تلافی ہے۔
ہمارے دین پر مصیبت واقع نہ ہو
حضور اقدس ﷺ نے بھی کیا کیا عجیب و غریب دعائیں تلقین فرمائی ہیں ، آدمی اس کے ایک ایک لفظ پر قربان ہوجائے۔ چنانچہ ایک دعا کے اندر آپ ﷺ نے فرمایا:
اَللّٰہُمَّ لاَتَجْعَلْ مُصِیْبَتَنَا فِیْ دِیْنِنَا۔ ’ ’اے اللہ کوئی مصیبت ہمارے دین پر واقع نہ ہو‘‘۔
اس لئے کہ جب انسان اس دنیا میں آیا ہے تواس کو کسی نہ کسی مصیبت سے سابقہ پیش آنا ہی ہے، کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ ہو یا مالدار ہو یا صاحبِ اقتدار ہو، کوئی بھی ایسا نہیں ملے گا جس کو کوئی نہ کوئی مصیبت پیش نہ آئی ہو، اس دنیا میں مصیبت تو ضرور پیش آئے گی لیکن سرکارِ دوعالم ﷺ یہ دعا فرمارہے ہیں کہ اے اللہ! جو مصیبت پیش آئے وہ دنیا کی مصیبت ہو، دین کی مصیبت پیش نہ آئے۔ پھر آگے ارشاد فرمایا:
ہماری سوچ اور علم کا محور دنیا کو نہ بنا
وَلاَتَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَ ہَمِّنَا وَلاَمَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلاَ
غَایَۃَ رَغْبَتِنَا۔
اے اللہ! ہماری ساری سوچ بچار دنیا ہی کے بارے میں نہ بنائیے کہ ہر وقت دنیا ہی کے بارے میں سوچتے رہیں اور آخرت کا کچھ خیال نہ ہو۔ اور اے اللہ نہ اس دنیا کو ایسا بنائیے کہ ہمارا سارا علم اس دنیا ہی کے بارے میں ہو اور دین کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہ ہو۔ اور نہ ہماری ساری خواہشات کا مرکز اس دنیا کو بنائیے کہ ہماری ساری خواہشات اور ہماری ساری امنگیں اس دنیا ہی سے متعلق ہوں اور آخرت کے بارے میں ہمارے دل میں کوئی خواہش اور امنگ نہ ہو۔
جاری ہے
قسط نمبر 2 کیلئے بلاگ دیکھیئے۔
0 تبصرے