حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم 


دوسری قسط 




تمام گناہ آفات ہیں 

لہٰذا حقیقی مصیبت وہ ہے جوانسان کے دین کو لاحق ہو۔ اورجتنے بھی گناہ ہیں وہ حقیقت میں آفت اور مصیبت ہیں ، اگرچہ ظاہری اعتبار سے اس گناہ کے کرنے میں لذت آتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ لذت دنیا بھی تباہی لانے والی ہے۔ اس وجہ سے صوفیاء کرام گناہوں کو ’’آفات‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ سب آفتیں ہیں اور زبان کے گناہوں کو ’’آفات اللسان‘‘ کہتے ہیں یعنی زبان پر آنے والی آفتیں اور مصیبتیں جن کے ذریعہ انسان مصیبت کا شکار ہوتا ہے۔ ان 


آفتوں میں سے ایک آفت یعنی ’’غیبت‘‘کا بیان ہوچکا۔

ایک مؤمن یہ چار کام نہیں کرتا

جو حدیث میں نے تلاوت کی ہے، اس حدیث میں بعض دوسری آفتوں کو بیان فرمایا ہے۔ حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: مؤمن طعنہ دینے والا نہیں ہوتا، لعنت کرنے والا نہیں ہوتا، فحش کلامی کرنے والا نہیں ہوتا اور بدکلامی کرنے والا نہیں ہوتا۔ یعنی مؤمن کا کام یہ ہے کہ اس کی زبان سے کوئی ایسا لفظ نہ نکلے جو طعنہ میں شامل ہو یا لعنت میں شامل ہو یا فحاشی میں شامل ہو یا بدگوئی میں شامل ہو۔ اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے چار چیزیں بیان فرمائیں ، اور ان چاروں چیزوں کا تعلق انسان کی زبان سے ہے۔

طعنہ کیا چیز ہے؟

اس حدیث میں پہلی چیز یہ بیان فرمائی کہ ’’مؤمن طعنہ دینے والا نہیں ہوتا‘‘ طعنہ دینا یہ ہے کہ کسی شخص کے منھ پر لپیٹ کر ایسی بات کرنا جس سے اس کی دل آزاری ہو۔ دیکھئے! ایک صورت یہ ہے کہ انسان دوسرے کو براہِ راست یہ کہہ دے کہ تمہارے اندر یہ برائی ہے۔ لیکن ’’طعنہ‘‘ اسے کہتے ہیں کہ گفتگو کسی اور موضوع پر ہورہی ہے، مگر درمیان 


میں آپ نے ایک فقرہ اور ایک لفظ بول دیا اور اس لفظ کو بولنے سے اس شخص پر طنز کرنا اور طعنہ دینااور اعتراض کرنا مقصود تھا اور اس طنز اورطعنہ کے نتیجے میں اس کی دل آزاری ہوئی۔ یہ ’’طنز اور طعنہ‘‘ بہت سخت گناہ ہے اور حضور اقدس ﷺ نے تو یہاں تک فرمادیا کہ مؤمن کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو طعنہ دے۔

زبان سے دل زخمی ہوجاتے ہیں 

عربی زبان میں ’’طعنہ‘‘ کے معنی ہیں ’’کسی کو نیزہ مارنا‘‘ اس لفظ کے اندر اس طرف اشارہ ہے کہ طعنہ دینا ایسا ہے جیسے دوسرے کو نیزہ مارنا۔ عربی کا ایک مشہور شعر ہے۔

جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَہَا الْتِیَامُ

ز

وَلاَ یَلْتَامُ مَاجَرَحَ اللِّسَانُ

یعنی نیزے کے زخم تو بھر جاتے ہیں لیکن زبان سے لگائے ہوئے زخم نہیں بھرتے۔

اس لئے کہ جب دوسرے کے لئے ’’طعنہ‘‘ کا کوئی لفظ بولا اور اس سے اس کا دل ٹوٹا، اور اس کی دل آزاری ہوئی تو دل آزاری کا زخم نہیں بھرتا، انسان ایک مدت تک یہ بات نہیں بھولتا کہ اس نے فلاں وقت مجھے اس طرح طعنہ دیا تھا۔ لہٰذا یہ طنز کرنا، دوسرے پر اعتراض کرنا اور طعنہ دینے کے انداز میں بات کرنا یہ دوسرے کی دل آزاری ہے اور اس کی آبرو 


پر حملہ ہے۔ اور حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ یہ عمل انسان کے ایمان کے منافی ہے۔

جاری ہے