حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم*
تیسری قسط
مؤمن کے جان و مال اور عزت کی حرمت
ایک مسلمان کی جان، اس کا مال، اس کی آبرو یہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ان کی اتنی حرمت بیان فرمائی ہے جس کا ہم اور آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جب حضور اقدس ﷺ خطبہ دے رہے تھے تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے پوچھا کہ یہ دن جس میں تم سے گفتگو کر رہا ہوں کونسا دن ہے؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! یہ عرفہ کا دن ہے۔ آپ ﷺ نے دوسرا سوال کیا کہ یہ جگہ جہاں میں کھڑا ہوں ، یہ کونسی جگہ ہے؟ صحابہ نے فرمایا کہ یہ حرم کا علاقہ ہے۔ آپ ﷺ نے پھر تیسرا سوال کیا کہ یہ مہینہ جس میں میں خطاب کر رہا ہوں یہ کونسا مہینہ ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ یہ ذی الحجہ کا مقدس اور حرمت والا مہینہ ہے۔ پھر فرمایا کہ اے مسلمانو! تمہاری جانیں ، تمہارے مال، تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرام ہیں جیسے آج کا یہ دن، آج کی یہ جگہ اور آج کا یہ مہینہ حرام ہے یعنی حرمت اللہ تعالیٰ نے اس مکان مقدس کو اور اس وقتِ مقدس کو عطا فرمائی ہے وہی حرمت ایک مؤمن کے جان و مال اور آبرو کی ہے۔
ایسا شخص کعبہ کو ڈھانے والا ہے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ بیت اللہ کا طواف فرمارہے تھے طواف کرتے ہوئے آپ ﷺ نے کعبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بیت اللہ! تو کتنی حرمت والا ہے، کتنے تقدس والا ہے، تو کتنا عظیم الشان ہے۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ اے عبداللہ! کیا دنیا میں کوئی چیز ہے جس کی حرمت اور جس کا تقدس بیت اللہ سے زیادہ ہو؟ میں نے عرض کیا کہ ’’اللہ ورسولہ اعلم‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا یہ متعین جواب تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ کونسی چیز اس سے زیادہ حرمت والی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں ایک چیز بتاتا ہوں جس کی حرمت اس بیت اللہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے وہ ہے ایک مسلمان کی جان، اس کا مال، اس کی آبرو اگر ان میں سے کسی چیز کو کوئی شخص ناحق نقصان پہنچاتا ہے تو وہ شخص کعبہ کو ڈھانے والے کی طرح ہے۔
مؤمن کا دل تجلی گاہ ہے
کسی کو طعنہ دینا، دراصل اس کی آبرو پر حملہ کرنا اور اس کی دل آزاری کرنا ہے ہمارے حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا
کرتے تھے کہ مومن کا دل تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی کام کے لئے بنایا ہے، وہ یہ کہ مومن کا دل صرف اللہ رب العالمین کی جلوہ گاہ ہو، اس دل میں ان کا ذکر اور ان کی یاد ہو، ان کی فکر ہو، ان کی محبت ہو، یہاں تک کہ بعض صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرمادیا کہ مؤمن کا دل ’’عرشِ الٰہی‘‘ ہے یعنی مؤمن کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت کی فرودگاہ ہے، یہ دل اللہ تعالیٰ کی ’’تجلی گاہ‘‘ ہے، چاہے انسان کتنا ہی برا ہوجائے، لیکن اگر اس کے دل میں ایمان ہے تو کسی نہ کسی وقت اس میں اللہ کی محبت ضرور اُترے گی۔ انشاء اللہ! اور جب یہ دل اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے لئے بنایا ہے تو ایک مؤمن کے دل کو توڑنا، درحقیقت اللہ جل شانہٗ کی جلوہ گاہ پر العیاذ باللہ حملہ کرنا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ تم کسی دوسرے مسلمان کا دل توڑو۔
مسلمان کا دل رکھنا موجبِ ثواب ہے
اگر تم نے کسی کا دل رکھ لیا، اس کو تسلی دے دی، یا کوئی ایسا کلمہ کہہ دیا جس سے اس کا دل خوش ہوگیا تو یہ عمل تمہارے لئے بہت بڑے اجر و ثواب کا موجب ہے اسی کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
دل بدست آور کہ حج اکبر است
یعنی کسی مسلمان کے دل کو تھامنا، یہ حج اکبر کا ثواب رکھتا ہے، اورطعنہ دینا دوسرے کا دل توڑنا ہے، اور یہ گناہِ کبیرہ ہے۔
جاری ہے
0 تبصرے