* حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم*
ساتویں قسط
حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ
میں نے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ سنا۔ ایسی بزرگ ہستی کہ ماضی قریب میں اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ شاہی خاندان کے شہزادے تھے، اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لئے نکل پڑے اور قربانیاں دیں ۔ ایک مرتبہ دہلی کی جامع مسجد میں خطاب فرمارہے تھے، خطاب کے دوران بھرے مجمع میں ایک شخص کھڑا ہوا
اور کہنے لگا کہ (العیاذباللہ) ہم نے سنا ہے کہ آپ حرام زادے ہیں ۔
اتنے بڑے عالم اور شہزادے کو ایک بڑے مجمع میں یہ گالی دی، اور وہ مجمع بھی معتقدین کا ہے۔ میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم جیسا کوئی آدمی ہوتا تو اس کو سزا دیتا، اگر وہ سزا نہ بھی دیتا تو اس کے معتقدین اس کی تِکہ بوٹی کردیتے اور کم از کم اس کو ترکی بہ ترکی یہ جواب تو دے ہی دیتے کہ تو حرام زادہ، تیرا باپ حرام زادہ لیکن حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ جو پیغمبرانہ دعوت کے حامل تھے جواب میں فرمایا :
’’آپ کو غلط اطلاع ملی ہے، میری والدہ کے نکاح کے گواہ تو آج بھی دلی میں موجود ہیں ۔‘‘
اس گالی کو ایک مسئلہ بنادیا، لیکن گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا۔
ترکی بہ ترکی جواب مت دو۔
لہٰذا طعنہ کا جواب طعنہ سے نہ دیا جائے۔ اگرچہ شرعاً ایک آدمی کو یہ حق حاصل ہے کہ جیسی دوسرے شخص نے تمہیں گالی دی ہے، تم بھی ویسی ہی گالی اس کو دیدو لیکن حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے وارثین انتقام کا یہ حق استعال نہیں کرتے۔ حضور اقدس ﷺ نے ساری زندگی یہ حق کبھی استعمال نہیں فرمایا بلکہ ہمیشہ معاف کردینے اور درگزر کردینے کا شیوہ رہا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے وارثین کا بھی یہی شیوہ رہا ہے۔
جاری ہے۔
0 تبصرے