حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم 


آٹھویں قسط 



انتقام کے بجائے معاف کرو

اے بھائی! اگر کسی نے تمہیں گالی دے دی تو تمہارا کیا بگڑا؟ تمہاری کونسی آخرت خراب ہوئی؟ بلکہ تمہارے تو درجات میں اضافہ ہوا، اگر تم انتقام نہیں لوگے، بلکہ درگزر کردوگے اور معاف کردوگے تو اللہ تبارک وتعالیٰ تمہیں معاف کردیں گے۔ حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص دوسرے کی غلطی کو معاف کردے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس دن معاف فرمائیں گے جس دن وہ معافی کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا یعنی قیامت کے دن، لہٰذاانتقام لینے کی فکر چھوڑدو، معاف کردو اور درگزر کردو۔

بزرگوں کی مختلف شانیں 

ایک بزرگ سے کسی نے سوال کیا کہ حضرت ہم نے سنا ہے کہ اولیاء کرام کی شانیں عجیب و غریب ہوتی ہیں ، کسی کا کوئی رنگ ہے، کسی کا کوئی رنگ ہے اور کسی کی کوئی شان ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ ان اولیاء کرام کی مختلف شانیں دیکھوں کہ وہ کیا شانیں ہوتی ہیں ۔ ان بزرگ نے ان سے فرمایا کہ تم کس چکر میں پڑگئے، اولیاء اور بزرگوں کی شانیں دیکھنے کی فکر میں مت پڑو، اپنے کام میں لگو۔ ان صاحب نے اصرار کیا کہ نہیں میں ذرا دیکھنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں کیسے کیسے بزرگ ہوتے ہیں ۔! ان بزرگ نے فرمایا کہ 


اگر تم دیکھنا ہی چاہتے ہو تو ایسا کرو کہ دہلی کی فلاں مسجد میں چلے جائو وہاں تمہیں تین بزرگ اپنے ذکر و اذکار میں مشغول نظر آئیں گے تم جاکر ہرایک کی پشت پر ایک مکہ ماردینا۔ پھر دیکھنا کہ اولیاء کرام کی شانیں کیا ہوتی ہیں چنانچہ وہ صاحب گئے، وہاں جاکر دیکھا تو واقعتا تین بزرگ بیٹھے ہوئے ذکر میں مشغول ہیں ۔ انہوں نے جاکر پہلے بزرگ کو پیچھے سے ایک مکہ مارا تو انہوں نے پلٹ کر دیکھا تک نہیں ، بلکہ اپنے ذکر و اذکار میں مشغول رہے۔جب دوسرے بزرگ کو مکہ مارا تو انہوں نے بھی پلٹ کر ان کو مُکَّہ ماردیا اور پھر اپنے کام میں مشغول ہوگئے۔ جب تیسرے بزرگ کو مکہ مارا تو انہوں نے پلٹ کر اُن کا ہاتھ سہلانا شروع کردیا کہ آپ کو چوٹ تو نہیں لگی۔

اس کے بعد یہ صاحب ان بزرگ کے پاس واپس آئے جنہوں نے ان کو بھیجا تھا۔ ان بزرگ نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ بڑا عجیب قصہ ہوا۔ جب میں نے پہلے بزرگ کو مارا تو انہوں نے پلٹ کر مجھے دیکھا بھی نہیں ، اور دوسرے بزرگ نے پلٹ کر مجھے مکہ ماردیا۔ اور تیسرے بزرگ نے پلٹ کر میرا ہاتھ سہلانا شروع کردیا۔

میں اپنا وقت بدلہ لینے میں کیوں ضائع کروں 

ان بزرگ نے فرمایا کہ اچھا یہ بتائو کہ جنہوں نے تمہیں مکہ مارا تھا، انہوں نے زبان سے کچھ کہا تھا؟ ان صاحب نے بتایا کہ زبان سے تو کچھ نہیں کہا، بس مکہ مارا اور پھر اپنے کام میں مشغول ہوگئے۔ ان بزرگ نے 


فرمایا کہ اب سنو! پہلے بزرگ جنہوں نے بدلہ نہیں لیا، انہوں نے یہ سوچا کہ اگر اس نے مجھے مکہ مارا تو میرا کیا بگڑ گیا، اب میں پیچھے مڑوں ، اس کو دیکھوں کہ کس نے مارا ہے اور پھر اس کا بدلہ لوں ، جتنا وقت اس میں صرف ہوگا وہ وقت میں اللہ کے ذکر میں صرف کردوں ۔

پہلے بزرگ کی مثال

اِن پہلے بزرگ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کو بادشاہ نے بلایا اور اس سے کہا کہ میں تمہیں ایک عالی شان انعام دوں گا۔ اب وہ شخص دوڑتا ہوا اس انعام کے شوق میں بادشاہ کے محل کی طرف جارہا ہے اور وقت کم رہ گیا ہے اور اس کو وقت پر پہنچنا ہے، راستے میں ایک شخص نے اس کو مکہ مار دیا اب یہ شخص اس مکہ مارنے والے سے الجھے گا یا اپنا سفر جاری رکھے گا کہ میں جلد از جلد کسی طرح بادشاہ کے پاس پہنچ جائوں ! ظاہر ہے کہ اس مکہ مارنے والے سے نہیں الجھے گا بلکہ وہ تو اس فکر میں رہے گا کہ میں کسی طرح جلد از جلد بادشاہ کے پاس پہونچ جائوں اور جاکر اس سے انعام وصول کروں ۔

دوسرے بزرگ کا انداز

دوسرے بزرگ جنہوں نے بدلہ لے لیا، انہوں نے یہ سوچا کہ شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ جتنی زیادتی کوئی شخص تمہارے ساتھ کرے اتنی زیادتی تم بھی اس کے ساتھ کرسکتے ہو، اس سے زیادہ نہیں کرسکتے۔ 


اب تم نے ان کو ایک مکہ مارا، تو انہوں نے بھی تمہیں ایک مکہ ماردیا، تم نے زبان سے کچھ نہیں بولا تو انہوں نے بھی زبان سے کچھ نہیں بولا۔

بدلہ لینا بھی خیر خواہی ہے

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض بزرگوں سے یہ جو منقول ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لے لیا، یہ بدلہ لینا بھی درحقیقت اس شخص کی خیرخواہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس لئے کہ بعض اولیاء اللہ کایہ حال ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان ان کو تکلیف پہنچائے یا ان کی شان میں کوئی گستاخی کرے اور وہ صبر کرجائیں تو ان کے صبر کے نتیجے میں یہ شخص تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔

حدیث قدسی میں اللہ جل شانہٗ فرماتے ہیں :

مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ

جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی کرے گا، اس کے لئے میری طرف سے اعلانِ جنت ہے۔

بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے ساتھ کی ہوئی زیادتی پر ایسا عذاب نازل فرماتے ہیں کہ ایسے عذاب سے اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔ کیونکہ اس ولی کا صبر اس شخص پر واقع ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ والے بعض اوقات اپنے ساتھ کی ہوئی زیادتی کا بدلہ لے لیتے ہیں تاکہ اس کا معاملہ برابر ہوجائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ کا عذاب اس پر نازل ہوجائے۔

جاری ہے۔