*طنز اور طعنہ سے بچئیے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم*
نویں قسط
اللہ تعالیٰ کیوں بدلہ لیتے ہیں
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو اس بات پر اشکال ہو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ اولیاء اللہ تو اتنے شفیق ہوتے ہیں کہ وہ اپنے اوپر کی ہوئی زیادتی کا بدلہ نہیں لیتے، لیکن اللہ تعالیٰ عذاب دینے پر تلے ہوئے ہیں وہ ضرور عذاب دیں گے اگر بدلہ نہ لیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اولیاء اللہ کی شفقت اللہ تعالیٰ کی شفقت اور رحمت کے مقابلے میں زیادہ ہوگئی۔ پھر اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ شیرنی کو اگرکوئی جاکر چھیڑے تو وہ شیرنی طرح دے جاتی ہے اور بدلہ نہیں لیتی اور اس پر حملہ نہیں کرتی، لیکن اگرکوئی جاکر اس شیرنی کے بچوں کو چھیڑے تو پھر شیرنی اس کو برداشت نہیں کرتی بلکہ چھیڑنے والے پر حملہ کردیتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی شان میں لوگ گستاخیاں کرتے ہیں ، کوئی شرک کر رہا ہے، کوئی اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کر رہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے تحمل سے اس کو درگزر فرمادیتے ہیں ، لیکن اولیاء اللہ جو اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں ، ان کی شان میں گستاخی کرنا اللہ تعالیٰ کو برداشت نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ گستاخی انسان کو تباہ کردیتی ہے لہٰذا جہاں کہیں یہ منقول ہے کہ کسی اللہ کے ولی نے بدلہ لے لیا، وہ بدلہ لینا اس کی خیرخواہی کے لئے ہوتا ہے کیونکہ اگر بدلہ نہ لیا تو نہ معلوم اللہ تعالیٰ کا کیا عذاب اس پر نازل ہوجائے گا۔
جہاں تک تیسرے بزرگ کا تعلق ہے وہ جنہوں نے تمہارا ہاتھ سہلانا شروع کردیا تھا ان کو اللہ تعالیٰ نے خلق خدا پر رحمت اور شفقت کا وصف عطا فرمایا تھا اس لئے انہوں نے پلٹ کر ہاتھ سہلانا شروع کردیا۔
پہلے بزرگ کا طریقہ سنت تھا
لیکن اصل طریقہ سنت کا وہ ہے جس کو پہلے بزرگ نے اختیار فرمایا۔ اس لئے کہ اگر کسی نے تمہیں نقصان پہونچایا ہے تو میاں ! کہاں تم اس سے بدلہ لینے کے چکر میں پڑ گئے، کیونکہ اگر تم بدلہ لے لوگے تو تمہیں کیا فائدہ مل جائے گا؟ بس اتنا ہی تو ہوگا کہ سینے کی آگ ٹھنڈی ہوجائے گی، لیکن اگر تم اس کو معاف کردوگے اور درگزر کردوگے تو سینے کی آگ کیا بلکہ جہنم کی آگ بھی ٹھنڈی ہوجائے گی انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ سے نجات عطا فرمائیں گے۔
معاف کرنا باعثِ اجر و ثواب ہے
آج کل ہمارے گھروں میں ، خاندانوں میں ، ملنے جلنے والوں میں دن رات یہ مسائل پیش آتے رہتے ہیں کہ فلاں نے میرے ساتھ یہ کردیا، فلاں نے یہ کردیا، اب اس سے بدلہ لینے کی سوچ رہے ہیں ، دوسروں سے شکایت کرتے پھر رہے ہیں ، اس کو طعنہ دے رہے ہیں ، اس کی دوسروں سے برائی اور غیبت کر رہے ہیں ، حالانکہ یہ سب گناہ کے کام ہیں ۔ لیکن اگر
تم معاف کردو اوردرگزر کردو تو تم بڑی فضیلت اور ثواب کے مستحق بن جائوگے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَمَنْ َصَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِO (سورۃ الشوریٰ، آیت:۴۳)
جس نے صبر کیا اورمعاف کردیا بیشک یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے۔
دوسری جگہ ارشاد فرمادیا کہ:
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌO
(سورۂ حم السجدہ، آیت:۳۴)
دوسرے کی برائی کا بدلہ اچھائی سے دو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جن کے ساتھ عداوت ہے وہ سب تمہارے گرویدہ ہوجائیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمادیا:
وَمَایُلَقّٰہَا اِلاَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَایُلَقّٰہَا اِلاَّذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍO
(سورۂ حم السجدہ، آیت:۳۵)
یعنی یہ عمل ان ہی کو نصیب ہوتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ صبر کی توفیق عطا فرماتے ہیں ، اور یہ دولت بڑے نصیب والے کو حاصل ہوتی ہے۔
جاری ہے
0 تبصرے