طنز اور طعنہ سے بچئیے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم 

گیارہویں و آخری قسط 




فحش گوئی کرنا

اس حدیث شریف میں تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ ’’وَلاَ الْفَاحِشِ‘‘ مؤمن فحش گو نہیں ہوتا۔ یعنی وہ ایسی بات زبان سے نہیں نکالتا جو فحاشی کے ذیل میں آتی ہو لہٰذا جہاں غصہ کرنے کا اور بولنے کا موقع ہو وہاں بھی فحاشی سے کام نہ لیاجائے اور بے حیائی کے کلمات زبان سے نہ نکالے جائیں ۔ یہ مومن کا شیوہ نہیں ہے۔

بدگوئی کرنا

چوتھا جملہ یہ ارشاد فرمایا: ’’وَلاَالْبَذِیْ‘‘ مومن بذی نہیں ہوتا ’’بذی‘‘ کے معنی ہیں ’’بدگو‘‘ ’’بداخلاق‘‘ مؤمن کسی سے بات کرتے ہوئے بدگوئی سے کام لینے والا اور برے الفاظ استعمال کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی زبان کو برے کلمات سے روکتا ہے۔

یہودیوں کی مکاری

حضور اقدس ﷺ کے زمانے کے یہودی بڑے عیار 


تھے، اس لئے کہ اُن کی فطرت میں ہمیشہ سے عیاری اور مکاری ہے، جب انہوں نے یہ دیکھا کہ مسلمان جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ تو انہوں نے یہ طریقہ نکالا کہ جب وہ کسی مسلمان سے ملتے تو ’’السلام علیکم‘‘ کے بجائے ’’السام علیکم‘‘ کہتے۔ درمیان سے ’’لام‘‘ کو گرادیتے تھے۔ عربی میں ’’السام‘‘ کے معنی ہیں ’’موت‘‘ لہٰذا ’’السام علیکم‘‘ کے معنی یہ ہوئے کہ تمہارے اوپر موت آجائے۔

ایک مرتبہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا ’’السام علیکم‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا موجود تھیں ، وہ سمجھ گئیں کہ یہ ’’السام علیکم‘‘ کہہ کر بظاہر سلام کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں بددعا دے رہے ہیں ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ’’علیکم السام واللعنۃ‘‘ یعنی تمہارے اوپر موت ہو اور تم پر لعنت ہو۔ جب حضور اقدس ﷺ نے یہ الفاظ سنے تو آپ نے فرمایا: ’’مَہْلاً یَاعَائِشَۃَ!‘‘ اے عائشہ نرمی سے کام لو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا بدتمیزی کی ہے، انہوں نے ’’السام علیکم‘‘ کہہ کر آپ کو بددعا دی ہے، اس لئے میں نے اس طریقے سے اس کا جواب دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے نہیں دیکھا کہ میں نے کیا جواب دیا، میں نے تو یہ جواب دیا ’’وعلیکم‘‘ یعنی جو کچھ تم میرے بارے میں کہہ رہے، وہ 


تمہارے اوپر ہو۔ 

(بخاری کتاب الادب، باب الرفق فی الأمر کلہ)

نرمی زینت بخشتی ہے

دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:

اِنَّ الرِّفْقَ لاَیَکُوْنُ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ زَانَہٗ وَلاَیَنْزَعُ مِنْ شَیْئٍ اِلاَّ شَانَہٗ۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب فضل الرفق)

نرمی جس چیز میں بھی ہوگی وہ نرمی اس کو زینت بخشے گی، اور جس چیز سے نرمی کو ختم کردیا جائے گا وہ اس کو عیب دار بنادے گا لہٰذا اس طریقے سے جواب دے کر تم کیوں اپنی زبان خراب کرتی ہو، صرف ’’وعلیکم‘‘ کہنے سے زبان خرابی سے بچ جاتی ہے۔

لہٰذا جب آدمی کلام کرے، چاہے غصے کے وقت بھی کلام کرے، اس وقت بھی بدگوئی کے الفاظ زبان پر نہ لائے۔ حضور اقدس ﷺ کے وہ اوصاف جو پچھلی کتبِ سماویہ تورات اور انجیل میں بطور علامت مذکور تھے اس میں ایک جملہ یہ بھی تھا:

وَلاَفَاحِشًا وَلاَمُتَفَحِّشًا وَلاَسَخَّابًا بِالْاَسْوَاقِ وَلٰکِنْ یَعْفُوْا وَیَصْفَحُ۔


یعنی نہ وہ فاحش ہوں گے، نہ متفحش ہوں گے، اور نہ بازاروں میں شورمچانے والے ہوں گے، لیکن وہ معافی اوردرگذر سے کام لیں گے۔ اور یہ کلمات تو آج بھی ’’بائبل‘‘میں موجودہیں کہ ’’بازاروں میں اس کی آواز سنائی نہیں دے گی، اور وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہیں توڑے گا، اورٹمٹماتی ہوئی بتی کو نہیں بجھائے گا۔ یہ حضور اقدس ﷺ کے اوصاف ہیں ۔

حضور اقدس ﷺ کی اخلاق میں بھی اتباع کریں 

حضور اقدس ﷺ کی اتباع صرف ظاہری اعمال کی حد تک محدود نہیں ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دایاں پائوں پہلے داخل کردیا اور نکلتے وقت بایاں پائوں پہلے نکال دیا۔ بیشک یہ بھی بڑے اجر و ثواب کی سنتیں ہیں ، ان پر ضرور عمل کرنا چاہئے، لیکن اتباعِ سنت ان اعمال کے ساتھ محدود نہیں ، اتباعِ سنت کا ایک لازمی حصہ یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق اور آپ ﷺ کے طریقۂ کار کو اپنایا جائے۔ خاص طور پر اس وقت جب کوئی شخص دوسروں کے ساتھ معاملہ کرے تو وہ فاحش اور بذی نہ ہو اور بدکلامی نہ کرے اورطعنہ نہ دے۔

لعنت کا وبال

حضور اقدس ﷺ نے لعنت کی ایک اور وعید یہ بیان 


فرمائی ہے کہ جب ایک انسان دوسرے پر لعنت کرتا ہے، تو پہلے وہ لعنت آسمان کی طرف جاتی ہے اورپھر وہ لعنت اس شخص کی طرف آتی ہے جس پر وہ لعنت کی گئی ہے اگر وہ لعنت کامستحق ہوتا ہے تواس کووہ لعنت لگ جاتی ہے اور اگر وہ لعنت کا مستحق نہیں ہوتا تو وہ لعنت واپس اس شخص پر جاکر لگ جاتی ہے جس نے لعنت کی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص لعنت کو غلط استعمال کرتا ہے تو اس لعنت کرنے والے کا کام تمام کردیتی ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری زبانوں کی ان تمام گناہوں سے حفاظت فرمائے جن کا ذکر حضور اقدس ﷺ نے ان احادیث میں فرمایا ہے۔ آمین۔

’’وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘