ظلم کا بدلہ ہوتا ہے علاج نہیں وہ بستر مرگ پر پڑی تھی اس کی عمر صرف پینتیس سال تھی اور اس کو سانس کی تکلیف تھی ہر ممکن علاج ہو رہا تھا مگر مرض اور تکلیف بڑھتی جارہی تھی یہ کہانی ہے جویریہ کی آئیے سنئیے جویریہ کی زبانی ۔۔۔۔۔ میں جویریہ رشید سندھ کے ایک دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتی ہوں میں نے میڈیکل کی فیلڈ فارمیسی میں ڈگری لی تھی میرے والد صاحب سندھ پولیس میں تھے اور اپنے بہن بھائیوں میں سب سے مضبوط تھے یہ ہی وجہ تھی کہ میری دونوں پھپھو پر بھی میری ماں کا رعب دبدبہ اس حد تک تھا اگر میرے والد صاحب کبھی میری کسی پھپھو کو گھر میں دعوت بھی دیتے تو وہ پھپھو میرے والد صاحب کی دعوت کے باوجود میری ماں سے اجازت لے کر ہمارے گھر آتی تھیں ۔۔۔۔۔ میرے ذہن میں دونوں پھپھو کا عکس اس لئیے بھی کچھ خاص اچھا نہیں تھا کہ میری ماں اکثر جو بھی نقصان ہوتا یا کوئی بیمار ہوتا تو میری کسی پھپھو کا نام لے کر کہہ دیتی اس نے جادو کر دیا کچھ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس اور اپنی دوستوں سے بھی پھپھو کے خلاف سن کر میرے ذہن میں اس رشتے کے حوالے سے بہت بغض بھر چکا تھا لہذا میں بلاوجہ ہی اپنی پھپھو پر نالاں رہتی تھی ۔۔۔۔۔ جب میں نے تعلیم مکمل کر لی تو میری شادی کے لئیے رشتے آنے لگے ایک پرپوزل میری بڑی پھپھو کی طرف سے آیا جو ابو کی طرف سے قبول اور امی کی طرف سے انکار کے بعد فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا گیا میرا ہونے والا شوہر اور منگیتر فہد انگلینڈ میں زیر تعلیم تھا اس کی تعلیم مکمل ہونے میں دو سال تھے اور پھر اس کا وہیں جاب کرنے اور سیٹ ہونے کا ارادہ تھا میں نے پھپھو کو ان کے نا کردہ گناہ کی سزا دینے اور اپنی ماں اور گھر میں ڈالے گئے تعویز ( جو کہ اب میں وثوق کے ساتھ کہتی ہوں پھپھو نے نہیں ڈالے تھے ) سے ہونے والے نقصانات اور ماں کو دی گئی تکلیف کا بدلہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی ماں کو اپنے ارادے سے آگاہ کرنے بعد ہاں کر دی ۔۔۔۔۔ میری پھپھو کے خلاف میرے خطرناک ارادے دیکھ کر بجائے مجھے سمجھانے کے میری ماں نے مجھے داد دی اور پھپھو کو رشتہ کے لئیے ہاں کر دی فہد کی تعلیم مکمل ہونے میں ڈیڑھ سال باقی تھا مگر میری ماں پھپھو کو جلد سے جلد میرے ہاتھوں ذلیل ہوتا دیکھنا چاہتیں تھیں اس لئے انہوں دوران تعلیم ہی میرا نکاح کر کے فہد کے ساتھ رخصتی کر دی ۔۔۔۔۔ فہد نکاح اور رخصتی کے بعد کچھ عرصہ پاکستان رکا اور پھر تعلیم مکمل کرنے کے لیے واپس انگلینڈ چلا گیا میری پھپھو کو سانس اکھڑنے کا مرض تھا جسے دمہ کی بیماری بھی کہا جاتا ہے ان کا لگاتار علاج جاری تھا اب ان کی دواؤں کی ذمہ داری میری تھی میں کبھی کبھی ان کا انہیلر چھپا دیتی جب مجھے لگتا اب پھپھو بالکل مرنے والی ہیں تو ان کو ڈھونڈ کر دے دیتی اور جب اپنا کارنامہ ماں کو سناتی تو خوب داد پاتی ۔۔۔۔۔ چونکہ دواؤں کی ذمہ داری میری تھی اور پھپھو میری بالکل ان پڑھ تھیں اس لئیے جب کبھی میری ماں میرے پاس آئی ہوتی تو ان کو پھپھو کی اذیت دیکھ کر سکون ملتا اس لئے میں جان بوجھ کر پھپھو کو کوئی غلط ٹیبلیٹ دے دیتی جس میں الرجی کی وجہ سے دمہ بڑھ جاتا اور پھپھو کی سانس پھول پھول کر رکنے کے قریب ہو جاتی تو میں انہیں سکون آور دوا دے دیتی میں یہ سب اپنی ماں کو خوش کرنے اور اپنے دل میں موجود بلاوجہ پھپھو کے بغض کو تسکین دینے کے لیے یہ سب کرتی اور ماں سے خوب داد سمٹیتی ۔۔۔۔۔۔ اس طرح سے سے ڈیڑھ سال میں نے پھپھو کو انتہا کی اذیت دی اور جب فہد کو تعلیم مکمل ہوئی تو ڈیڑھ سال بعد فہد واپس آ گیا پھر بھی میں وقتاً فوقتاً فہد کی غیر موجودگی میں پھپھو کو غلط دوا دے کر اذیت سے دوچار کر دیتی اور کبھی کبھی اس کی موجودگی میں پھپھو کا انہیلر چھپا دیتی یوں میں پھپھو کو اذیت دے کر اپنی ماں کی تکلیفوں کا بدلہ لینے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی ۔۔۔۔۔۔۔ میری شدید ترین خواہش اور کوشش کے باوجود فہد نے کبھی ماں کی شان میں گستاخی نہ کی یہاں تک میں انہیلر فلیش میں بہا دیتی تو فہد نیا انہیلر اسی وقت لے آتا جب اسے پتہ چلتا کہ فہد کی ماں کا پہلا انہیلر گم ہو گیا ہے میری دلی خواہش کے باوجود کبھی فہد نے ماں کے سامنے ماتھے پر سلوٹ بھی نہ ڈالی کہ روز انہیلر کیوں گم کر دیتی ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔ خیر فہد ایک بار پھر واپس چلا گیا میرے اور پھپھو کے کاغذات بھی ساتھ لے گیا تا کہ ہمارا بھی ویزہ اپلائی کر سکے تو میں نے پھپھو جو میری اذیت اور غلط دوائیں کھا کھا کر انتہائی لاغر ہو چکی تھیں کو ایک بار پھر زیراعتاب لیا اور ایک دن پھپھو کا انہیلر چھپا کر ان کے کمرے میں چھانٹ پونچھ اور جھاڑو کے نام پر ڈسٹ اڑا دی جب پھپھو کی تکلیف بڑھی تو میں انہیلر نیا خریدنے کے بہانے باہر نکل گئی باہر اپنی ایک دوست کے پاس رک گئی جب اچانک مجھے پھپھو کا خیال آیا تو مجھے کسی انہونی کا احساس ہوا میں جلدی سے گھر پہنچی مگر پھپھو اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں ۔۔۔۔۔ میں نے جلدی سے انہیلر ان کے بیڈ کے پاس رکھا ماں کو ساری بات بتائی انہوں نے ا کر پھپھو کی حالت درست کی پھر میرے والد صاحب کو فون پر اطلاع دی پھر والد نے ڈاکٹر صاحب کو بلایا جب پھپھو کی موت کی تصدیق ہو گئی تو فہد کو بھی اطلاع کر دی گئی فہد ماں کی موت کی خبر سن کر دوڑا آیا اللہ نے میرا بھرم رکھا میرا راز آج تک افشا نہیں ہوا نہ کبھی میرے کسی عمل کی پھپھو نے فہد سے شکایت کی مگر پھپھو کے جنازے کے فورا بعد مجھے سانس کی تکلیف شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ میرے ایک پھپھڑے میں پانی پڑ چکا ہے فہد پاکستان میں میرے پاس ہے یہاں ہی جاب کر رہا ہے میں ہفتے میں پانچ دن ہسپتال گزارتی ہوں میں ماں بننے کی صلاحیت کھو چکی ہوں پاکستان کا کوئی ڈاکٹر میری بیماری کا ایسا نہیں جہاں سے میں نے دوا نہ لی ہو مگر آج دس سال گزرنے کے باوجود میں ہفتے میں پانچ دن شدید اذیت میں گزارتی ہوں میری ماں مجھے لاکھ تسلیاں دیتی ہے کہ بیٹا بیماری میں گناہ جھڑتے ہیں تم نے ماں کی خاطر قربانیاں دی ہیں یہ وہ مگر میرا دل مطمئن نہیں ہوتا میں کئی بار پھپھو کی قبر پر جا کر معافی مانگ چکی ہوں مگر میرا کفارہ ابھی بھی جاری ہے فہد کو آج تک مجھ پر شک نہیں ہوا اگر ہوا بھی ہے تو اس کے عمل اور چہرے سے ظاہر نہیں ہوا ۔۔۔۔۔ مگر نہ جانے کیوں میرا دل کہتا ہے میری ماں نے میری تربیت غلط کی ہے میری پھپھو بھی میری ساس اور ماں تھی میری پھپھو نے کبھی ہمارا برا نہیں چاہا میں کئی بار خواب میں پھپھو کو ایک محل میں بیٹھے ہوئے دیکھتی ہوں مگر جب ان کی نظر مجھ پر پڑتی ہے تو وہ رونے لگتی ہیں میری شدید ترین خواہش ہے کہ میری زندگی ختم ہو اور اس اذیت سے میری جان چھوٹے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوا اس اذیت میں مجھے دس سال گزر چکی ہیں اور ان دس سالوں میں ایک بات کی تصدیق کرتی ہوں کہ ۔۔۔۔۔ "پھپھو بھی ماں ہوتی ہے" اور میری ماں نے میری تربیت غلط کی تھی میں آج کی ماؤں سے التجا کرتی ہوں کہ بچوں کو سکھائیں پھپھو فسادی نہیں ہوتی اور ساس پر کبھی ظلم نہ کریں اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
copied