پی ۔ ای ۔ سی ۔ ایچ ۔ ایس بلاک ٹو کی ننھی
امریکہ آۓ ہوۓ تقریباً چالیس سال ہو گئے ۔ شادی کے ایک سال بعد ہی ادھر آ گئ تھی یا یوں کہیں کہ لائ گئ تھی ۔ یہ طویل عرصہ کیسے گزرا پتا ہی نہیں چلا ۔ پیچھے مُڑ کے دیکھتی ہوں تو ذندگی کی دُھندلی سی فلم ایک لمحے میں ذہن کے پردے پر چلتی نظر آ جاتی ہے ۔ کتنا کچھ گزر گیا ۔ کتنا کچھ پیچھے چھوڑ آئ ۔ کتنا کچھ کھو دیا ۔ اُداسی من میں اُتر آتی ہے ۔ ہم عورتوں کی تو خوشیاں بھی کچھ چھوڑنے اور کسی سے بچھڑنے سے منسلک رہتی ہیں ۔ پتا نہیں شریکِ سفر کے ملنے کی خوشی ماں باپ کا گھر چھوڑنے کے غم سے ذیادہ ہوتی ہے یا کم ۔ کہہ نہیں سکتی ۔ صرف ماں باپ کا گھر نہیں چھوٹا تھا ۔ بلاک ٹو میں بِتایا ہوا پورا بچپن چِھن گیا تھا ۔ وہ گلیاں وہیں رہ گئیں جہاں آنکھ کھولی تھی ۔ جِن گلیوں میں کھیلتے کودتے بچپن گزرا تھا ۔ جہاں ذندگی کے پہلے دوست بنے تھے ۔ جہاں بڑے ہوۓ ۔ جہاں کے ہر گھر کے ایک ایک فرد سے کوئ نہ کوئ رشتہ بنا ہوا تھا ۔ رشید چچا ، وحیدہ آنٹی ، ندیم بھائ اور ان کی بہن اور میری عزیز ترین دوست نادیہ یعنی نادی ۔ یہ تو صرف اونچے سے نیم کے پیڑ والے گھر " آشیانہِ رشید " کے مکین تھے ۔ اسی طرح کے رشتے ہر گھر کے تمام افراد سے بنے ہوۓ تھے ۔ کوئ دو چار کو چھوڑ کر سب پیار کرنے والے ۔ ان دنوں حالات بھی قدرے بہتر تھے ۔ بیرونی دروازوں اور گیٹوں کو اندر سے کُنڈی لگانے کا رواج نہ تھا ۔ چُھپّن چُھپائ کھیلتے ہوۓ چیٹ کرتے اور کسی بھی گھر کا دروازہ کھول کے اس کے پیچھے چُھپ جاتے تھے ۔ کبھی امی نُکّڑ والی دکان سے کچھ سودا لینے بجھواتیں اور راستے میں اگر کسی آوارہ کتے کو دیکھتے تو بِنا سوچے قریب ترین دروازے کو ذور سے دھکا دے کر اندر گُھس جاتے اور پھر مُنڈی نکال کر کتے کو دیکھتے رہتے اور اس کے اِدھر اُدھر ہونے پر ہی باہر نکلتے ۔ اکثر تو اس گھر والی چاچی ساتھ آتیں اور گھر تک چھوڑ کے جاتیں ۔ ایک ایک گھر اور اس گھر کے ایک ایک فرد کو پہچانتے تھے ۔ گھر تو چھوڑیں ہمیں تو گھروں میں لگا ایک ایک نیم اور آم کا درخت اور گلی کے نکڑ پر لگے پیپل کے اونچے اور پھیلے ہوۓ سارے درخت یاد ہیں ۔ ہر ہر درخت سے کوئ نہ کوئ یاد جڑی ہوئ ہے ۔ کہاں سے زمین پر گِری نمولیاں چن چن کر کھاتے تھے ۔ کس پیڑ کی کچی کیری توڑنے کے لئے دیوار پر چڑھنا پڑتا تھا ۔ کس پیپل کے پیڑ کے ساتھ ٹیک لگا کے گڑیوں کی شادی ارینج کرتے تھے ۔ اور کس درخت سے گر کے پہلا فریکچر کروایا تھا ۔ قبرستان کی پچھلی دیوار کے ساتھ ریڑھی پر گولا گنڈے والا پٹھان لالا یاد آتا ہے کہ سکول سے واپسی پر اس سے گولا گنڈا کھانا دنیا کی سب سے بڑی عیاشی تھی ۔ ریڑھی اونچی ہونے کی وجہ سے میں اچک اچک کر اور ایڑیوں کے بل کھڑی ہو کے لالا کے تیز تیز چلتے ہاتھوں کو دیکھتی اور ساتھ ہی نظر رکھتی کہ کہیں برف کم تو نہیں یا لال پیلا اور سبز شربت ڈالتے ہوۓ کنجوسی تو نہیں کر رہا ۔ لالا آخر میں گولے پر گاڑھی سی ملائ ڈالتا تو میں بے اختیار چیختی لالا ملائ ذیادہ ۔ لالا ملائ ذیادہ ۔ اللہ معاف کرے ان دنوں ہمارا خیال تھا کہ خدا نے دنیا میں اس ملائ سے بہتر کوئ چیز نہیں بنائ تھی ۔ آج بھی اس کی مِٹھاس ذبان پر محسوس ہوتی ہے ۔
چند دن پہلے ہوسٹن میں رہنے والی میری بچپن کی سہیلی نادی کا فون آیا کہ کراچی جا رہی ہوں ۔ کوئ چیز بھجوانی ہو یا وہاں سے منگوانی ہو تو بتا دوں ۔ میں نے کہا جن کے لئے بھجواتی تھی وہ تو رہے نہیں ۔ اب کس کے لئے بھجواؤں ۔ ہاں ہو سکے تو بلاک ٹو کا احوال لیتی آنا ۔ بچپن کی کچھ یادیں تازہ کرتی آنا ۔ سنا ہے کہ اکثر گھر گِرا کر تین تین منزلہ مکان بناۓ جا رہے ہیں ۔ کسی گرے ہوۓ گھر کی ٹوٹی ہوئ اینٹ لیتی آنا ۔ خالد بن ولید روڈ کے کنارے لگے پیپل کے درختوں کے کچھ پتے لیتی آنا ۔ بچپن میں نورانی ریسٹوران کے قریب سے گزرتے تو بار بی کیو کے دہکتے کوئلوں سے اٹھتے شعلوں اور ہوا میں اڑتی چنگاریوں کو دیکھنا بہت مزا دیتا تھا ۔ کچھ چنگاریاں مٹھی میں بند کر کے لیتی آنا ۔ شب رات کو قبرستان پر بڑا چراغاں ہوتا تھا ۔ گلاب کے پھولوں کے سٹال لگ جاتے تھے ۔ لوگ اپنے پیاروں کی قبر پر پھول ڈالتے اور دیر تک دعائیں مانگتے ۔ ذرا دیر کو تم بھی چلی جانا ۔ میرے پیاروں کی قبر پر بھی کچھ پھول ڈال دینا اور فاتحہ پڑھنا ۔ ان پھولوں کی چند پتیاں میرے لئے لیتی آنا ۔ ابا کو کہنا ان کی ننھی انہیں بہت یاد کرتی ہے ۔ ابا کی انگلی مضبوطی سے تھام کر ان کے ساتھ کمرشل ایریا جایا کرتی تھی ۔ ابا کی انگلی کی وہ پکڑ تحفظ کا سب سے بڑا سہارا محسوس ہوتی تھی ۔ ممکن ہو تو ابا کی انگلی کا لمس اور تحفظ کا وہ احساس لیتی آنا ۔
شاہد جاوید
0 تبصرے